میں نے گھر جانے کی بجائے ملتان میں ایک فلاحی ادارے میں جانا بہتر سمجھا

میں زبیر مرزا ہوں میں جنوبی پنجاب کے ایک گاؤں کا رہنے والا ہوں آج میرا بیٹا مجھے مار رہا تھا اور خود کو تکلیف سے بچانے کے لیئے میں آگے ہاتھ کر رہا تھا تا کہ میرے جسم کی بجاۓ چوٹ میرے ہاتھ پر لگے اور تکلیف کی شدت کم ہو مگر میرے بیٹے نے زور دار ڈنڈا میرے بازو پر مارا اور میرا بازو توڑ دیا تا کہ میرا ہاتھ مجھے تکلیف پہنچاتے وقت اس کی راہ میں رکاوٹ نہ بنے جب مار کھاتے کھاتے میں بیہوش ہو گیا تو میرا بیٹا مجھے چھوڑ کر کہیں باہر چلا گیا کہیں آدھی رات کو

میرے ہواس بحال ہوۓ تو بیٹے کے ہاتھوں پٹنے کی وجہ سے لگنے والی چوٹیں اور بازو میں اٹھنے والے درد کی وجہ سے ساری رات بیٹھ کر کراہتے ہوئے گزاری اور صبح ہوتے ہی منت ساجت کر کے پڑوسی کے ذریعے سرکاری ہسپتال پہنچا سر کاری ہسپتال بھی بس نام کا ہسپتال تھا ورنہ اس میں کام کرنے والے عملے کے سب لوگ مانند فرعون تھے ہر کسی کو پہلے بات سننے پر آمادہ کرنا پڑتا ہیں اور بات سنوانے کے لئے اس متعلقہ ں کی پوجا کرنے کے مترادف جبیسا گڑ گڑانا پڑتا تھا

واسطہ اور منتیں کرنی پڑتی ہیں پھر کوئی اگر کسی میں بھی رتی برابر انسانیت ہو تو بات سن لیتا ہے ورنہ وہ اپنی بے نیازی دکھاتا رہتا ہے بہت زیادہ منت سماجت کرنے کے بعد ایک کمپاوڈر نے میری بات مانی اور مجھے ایک سکون آور انجیکشن دے کر سلا دیا کیونکہ ڈاکٹر صاحب کے آنے میں ٹائم باقی تھا خیر ڈاکٹر صاحب آۓ مجھے چیک کیا اور پٹی کر کے کچھ میڈین دیں اور فارغ کر دیا بعد ازاں میں نے گھر جانے کی بجائے ملتان میں ایک فلاحی ادارے میں جانا بہتر سمجھا

اس فلاحی ادارے میں آج میری پہلی رات ہے اور میرے سامنے میرا ماضی گھوم رہا ہے میں اس وقت سترہ سال کا تھا جب میرے والد صاحب نے اپنے سگے بھائی یعنی میرے چچا کی زمین دھوکے سے ہتھیا لی تھی چونکہ میرے والد صاحب پڑھے لکھے تھے اور پنجاب پولیس میں کانسٹیبل بھی تھے جبکہ میرے چچا ان پڑھ اور انتہائی سادہ تھے اوپر سے ان کو اپنے بھائی یعنی میرے والد صاحب پر بے حد بھروسہ تھا میرے ے والد صاحب نے اس بھروسے کا فائدہ اٹھاتے ہوۓ میرے

تایا کے نام پر موجود ساری زمین اپنے نام منتقل کر وا لی یہاں تک کہ جس گھر میں وہ مقیم تھا وہ گھر بھی اپنے نام کروا لیا اور پھر پولیس سے ملی بھگت کر کے اسے گھر سے اٹھا باہر کیا اور گھر کا سامان بھی باہر پھینک دیا میری بچی نے لاکھ ہاتھ جوڑے اپنی معصوم بچیوں کو سامنے کر کے کہا ان پر ترس کرو مگر میرے والد صاحب کے دل میں ذرا برابر بھی رحم نہ آیا چچا چونکہ پیسے تعلق تعلیم اور وسائل وغیرہ ہر لحاظ میرے والد سے کمزور تھے اس لیے کچھ دن تک لڑنے اور بد دعائیں

دینے کے بعد گاؤں چھوڑ کر دوسرے گاؤں شفٹ ہو گئے گھر کا کچھ سامان وغیرہ بیچ کر ایک گدھا گاڑی خرید لی اور اسی پر محنت مزدوری کر کے اپنی اور بچوں کی روٹی کمانے لگے کچھ وقت گزرنے کے بعد میں نے چچا سے تعلقات بہتر کرنا شروع ، کئیے یہاں تک کہ ان کے گھر آنے جانے لگا اسی دوران میری بڑی چچازاد کزن علیزہ میں مجھے دلچسپی پیدا ہوئی اور میں نے اسے محبت کے نام پر ور غلانا شروع کر دیا اپنے باپ کی طرح میں نے بھی چچا کو دھوکا دینا شروع کر دیا یہاں تک

ایک رات اپنی بڑی بیچازاد کزن کو لے کر فرار ہو گیا میں نے اپنی محبوبہ کزن سے شادی کر لی چچا جو پہلے ہی ہماری طاقت سے واقف تھا اس بار بنا زور آزمائی کئیے ہار مان گیا مگر میرے باپ کو میری محبوبہ اور اپنی بھتیجی کا اپنی بہو جانا ایک آنکھ نہ بھایا انہوں نے مجھے علیزہ کو طلاق دینے کا کہا میں نہ مانا اور اپنے فیصلے پر ڈٹ گیا تو میرے والد صاحب نے حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوۓ وقتی طور پر خاموشی اختیار کر لی خیر تین چار ماہ بعد محبت کا بھوت میرے سر سے بھی اتر گیا اور

اس کے بعد علیزہ کی اہمیت گھٹتی گئی یہاں تک کہ شادی کے دو سال بعد جب میں نے دل بھر اپنی نفسی خواہش پوری کر لی تو میرے والد نے موقع مناسب دیکھ کر مجھے ایک بار پھر علیہ سے جان چھڑانے کا کہا اور اس بات جان چھڑانے کے لئے اسے طلاق دینے کا نہیں بلکہ اس جہان فانی سے رخصت کرنے کا فیصلہ کیا یوں والد صاحب کی مرضی اور طریقے کے مطابق علیزہ کو ایک کمرے میں بند کر کے ہیٹر کی گیس کھول

دی گئی یہاں تک کہ علیزہ تڑپ تڑپ کر مر گئی اور اس کی موت کو قدرتی موت قرار دیا گیا یوں علیزہ بھی زندگی سے نکل گئی اور میں نے اپنا مطلب بھی پورا کر لیا خیر وقت گزرتا ہے اس کے بعد میرا باپ اپنی مرضی سے میری شادی کرتا ہے میری شادی کے کچھ سال بعد والدین چل بستے ہیں البتہ میرا اور میری بیوی کا وقت اچھا گزرتا ہے ہمارا ایک ہی بیٹا ہوتا ہے جب میرا بیٹا سولہ سال کا تھا تو اپنی ماں کے ساتھ لاہور سے واپس آ رہا تھا دوران سفر گاڑی کو حادثہ پیش آیا

میری بیوی بھی مر گئی بیٹا بچ گیا اور اب میں کہتا ہوں کاش تب بیٹا مر جاتا بیوی بچ جاتی میرا بیٹا بری صحبت میں پڑا پھر نشہ اور چوری چکاری کرنے لگا جب چوری چکاری سے بھی نشے حاصل کرنے کے لئے مطلوبہ رقم پوری نہ ہوئی تو بالغ ہوتے ہی اپنے نام پر موجود زمین بیچ کر نشہ خریدنے لگا یہاں تک وہ ساری زمین بیچ کر منشیات خریدنے پر لگا دی جو میرے باپ نے میری خاطر اپنے سگے بھائی جو دھوکہ دے کر ہتھیا لی تھی اور میں نے وہ زمین اپنے لاڈلے بیٹے کے نام کر دی تھی

اب جب بیچنے کو کچھ نہیں باقی رہا تو مجھے تشدد کا نشانہ بناتا ہے اور کہتا ہے جس گھر میں رہتے ہو یہ گھر میرے نام کرو اور خود کہیں اور چلے جاؤ میں نے یہ گھر بیچ کر دوا خریدنی ہوتی ہے میرے انکار پر مجھے پیٹتا ہے تو میرے سامنے میرا ماضی چلتا ہے کیسے میں نے اور میرے باپ نے ظلم کئیے اور آج ۔ کس منہ سے میں اللہ تعالی کے سامنے شکوہ کناں ہوتا ہوں آج میرے بیٹے نے مار مار کر میرا بازو توڑ دیا اور مجھے لگنے لگا

وہ کسی دن مجھے جان سے مار دے گا اسی ڈر کی وجہ سے میں ہسپتال سے سیدھا یہاں آ گیا ہوں میں اب جب تک زندہ رہوں گا یہاں رہوں گا اور موت کے بعد لاوارث قرار دے کر دفنایا جاؤں گا وہ زمین میرے زوال کی وجہ بنی جو میرے باپ نے میرے چچا سے ہتھیا لی تھی اور میں نے اس ظلم میں اپنے باپ کو سپورٹ کیا تھا نہ صرف یہاں اکتفا کیا بلکہ بعد ازاں پیچا کی عزت پر ہاتھ ڈالا اور دھجیاں ادھیٹر دیں بیچا کی بیٹی کو لے کر فرار ہوا تو چچا پر دوبارہ ظلم کیا اور پھر اسی چچازاد کو

جس سے میں محبت کا دم بھرتا تھا قتل کر دیا تو اب ایک بار پھر ظلم کی حد کو کراس کر لیا لیکن اس کے باوجود مجھے مہلت ملی مگر میں راہ راست کی طرف نہ پلٹا یہاں تک ہر ظالم کی طرح میری پکڑ کا بھی وقت آن پہنچا آج میں کیے گئے ہر ظلم کا نتیجہ بھگت رہا ہوں اور اس بات کی تصدیق کرتا ہوں کہ زر زر اور زمین واقع ہی فساد کی جڑ ہیں

Comments are closed.